بھوپال، 16 فروری (پریس نوٹ) مدھیہ پردیش اردو اکادمی ،محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام ’’ادب میں نوآبادیاتی ذہنیت سے نجات‘‘ پر مبنی سہ روزہ جشن اردو کا افتتاح 16 فروری 2024 کو دوپہر 3:00 بجے گوہر محل ،بھوپال میں جناب دھرمیندر بھاو سنگھ لودھی ، وزیر، محکمہ ثقافت، سیاحت، مذہبی ٹرسٹ اور اوقاف نے کیا۔ ساتھ ہی جناب شیو شیکھر شکلا، پرنسپل سیکریٹری، محکمہ ثقافت و سیاحت اور ڈائریکٹر سنسکرتی جناب این پی نامدیو کی باوقار موجودگی رہی۔ اس موقع پر دارا شکوہ کی سر اکبر کی شرح الکھ پرکاش کا ہوا اجرا جناب وزیر ثقافت کے ہاتھوں ہوا۔ اس موقع پرانھوں نے اپنے خطاب میں اردو ہندی کی آمیزش کو ہندوستان کی خاصیت بتایا اور کہا کہ ادب کسی بھی زبان کا ہو اس میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور یہاں کے اقدار کی شمولیت ہونا چاہیے ۔ مجھے خوشی ہے کہ مدھیہ پردیش اردو اکادمی کے پروگرام کا موضوع نوآبادیاتی ذہنیت سے نجات ہے۔ اس سے ہماری نسل کو اپنی روایات کا احساس ہوگا۔
پروگرام کی شروعات میں اردو اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی نے پروگرام کے بارے بتاتے ہوئے کہا کہ مدھیہ پردیش اردو اکادمی اور محکمۂ ثقافت سبھی کی یہ کوشش ہے کہ جو بھی پروگرام محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام منعقد ہوں وہ زبان و ادب کے فروغ کے نظریہ سے بامقصد ہوں۔ اس سال اکادمی نے دارا شکوہ پر مبنی کتابوں کا اردو ہندی ترجمہ کیا ہے یہ ایک اہم دستاویز ہے۔
پہلے دن کے پہلے اجلاس میں بیت بازی مقابلہ ہوا جس میں بھوپال کی سار ٹیموں نے حصہ لیا. بیت بازی مقابلے میں حکم صاحبان کے طور پر شہر کی سینئر شاعرات خالدہ صدیق اور نفیسہ سلطانہ انا موجود تھیں جن کے متفقہ فیصلے سے ٹیم تاج بھوپالی کے سرفراز علی اور سلمان انصاری نے اول، ٹیم میر کی زینب اور ایمن علی نے دوم اور ٹیم غالب کے شوکت انصاری اور عظمیٰ شیخ نے سوم مقام حاصل کیا. تمام فاتحین کو 18 فروری کو اختتامی اجلاس میں انعامات سے نوازا جائے گا. پہلے اجلاس کی نظامت کے فرائض آفرین بانو نے انجام دیے۔
دوسرے اجلاس میں ادب میں نوآبادیاتی ذہنیت سے نجات موضوع پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت سینئر ادیب ڈاکٹر محمد نعمان خان نے فرمائی اور مقررین کے طور پر سینئر ادبا پروفیسر اختر حسین اور ڈاکٹر سادھنا بلوٹے موجود رہے.
(باقی صفحہ 7 پر)
ڈاکٹر محمد نعمان خان نے کہا کہ نوآبادیاتی نظام سے مراد کسی ملک اور اس کے عوام پر کسی غیر ملک کے ذریعے بالجبر حکومت کرنا اور مقبوضہ ملک کے باشندوں کا سیاسی، تعلیمی معاشرتی، تجارتی، تہذیبی و ثقافتی استحصال کرنا ہے۔ نو استعماریت یا نوآبادیات دراصل سامراجیت اور مطلق العنانیت کی ایک بدترین شکل ہے جس میں عوام الناس کے انسانی حقوق سلب کرنے، درخشاں ماضی سے قطع تعلق کرانے کی سعی نامشکور کی گئی ہے۔ ان پر طرح طرح کے ظلم و استبداد کرکے انھیں اپنی تھوپی ہوئی ذہنی مرعوبیت سے سے ہم کنار کیا جاتا ہے۔
پروفیسر اختر حسین نے کہا کہ یہ سب نوآبادیاتی نظام جس کے ہم سب شکار ہیں اس کی داستان اتنی طویل ہے کہ اس کے لیے داستان الف لیلیٰ جیسی ضخامت والی کتاب تک کم پڑ جائے۔ لیکن یہ داستان سننے کو راتیں کالی کرنا پڑیں گی۔ جہاں تک اس سے نجات کا تعلق ہے تو ایک معلم اور ادب کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اردو کے کئی اہم شعرا نے اس سے نجات دلانے کے حوالے سے اشعار کہے ہیں ۔
ڈاکٹر سادھنا بلوٹے نے کہا کہ اپنی خودداری اور انا کو کھو دینا ہی نوآبادیاتی ذہنیت کا پہلا قدم ہے۔ سیاسی داستاں دکھائی دیتی ہے لیکن ثقافتی داستاں دکھائی نہیں دیتی. میرا ماننا ہے کہ نوآبادیاتی ذہنیت انسانی جسم میں چڑھایا جانے والا ناقص خون ہے جس ایک جسم کا وجود ہی ختم کردیتا ہے۔ اس اجلاس کی کامیاب نظامت کے فرائض ڈاکٹر احسان اعظمی نے انجام دیے۔
تیسرے اجلاس میں یاد رفتگاں کے تحت بھوپال کے معروف طنزومزاح نگار تخلص بھوپالی کی یاد میں محفل طنزومزاح کا انعقاد ہوا جس میں معروف مزاحیہ اداکار و شاعر احسان قریشی ممبئی ، شاعرہ زینت احسان قریشی ممبئی، سنیل کمار تنگ پٹنہ اور پروفیسر کے کے پٹیل بھوپال نے اپنا کلام پیش کر سامعین سے خوب داد وصول کی ۔
آخری اجلاس میں محفل صوفیانہ کے تحت ممتا جوشی بہترین نغمے پیش کر سامعین کو وجد آفریں کردیا۔ اس اجلاس کی نظامت کے فرائض ثمینہ علی صدیقی نے انجام دیے۔