بھوپال۔7 مارچ ( رپورٹر) ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر کامیاب عورت کے پیچھے مرد ہو۔ آج معاشرے کے ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ کامیابی کی داستانیں رقم کرنے والی خواتین نے ثابت کر دیا ہے کہ ”ہم بھی کسی سے کم نہیں“۔خواتین کے عالمی دن پر ملئے ریاست کی کچھ ایسی خواتین سے جنہوں نے اپنے طور پر خود کو منوایا اور لوگوں کو ایک ایسا راستہ بھی دکھایا کہ اگر ذہن میں جوش، کچھ کرنے کی خواہش اور پختہ خود اعتمادی ہو تو ان کے راستے میں کوئی مشکل نہیں روک سکتے۔
اب سکھا رہی ہےں ہنر، بنا رہی ہےں خود مختار : حمےرا خان
کھلونوں سے کھیلنے کی عمر میںحمیرا کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا۔ وہ دنیا کے سب سے بڑے سانحہ بھوپال گیس سانحہ کے دوران یتیم ہوگئیں۔ اماں ستارہ بی نے بڑی مشکل سے ایک بیٹے اور ایک بیٹی کی پرورش شروع کی۔ وہ اپنے گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے سلائی اور کڑھائی کا کام کرتی تھیں۔ حمیرا نے اپنی مہارت کا پہلا سبق یہیں سے سیکھنا شروع کیا۔ زری زردوزی کے آلات ان کے ہاتھ میں اس عمر میں آئے جب کتابیں اور کھلونے ان کے ہاتھ میں ہونے تھے۔ حمیرا بچپن کی مشکل سے نکلی تو اس کے ہاتھ میں زری زردوزی کا کمال تھا۔ سال 2007 میں ان کے کام کو سراہا گیا اور ریاست کے اس وقت کے وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان نے حمیرا کو ریاستی سطح کے ایوارڈ سے نوازا۔ جب یہ سلسلہ شروع ہوا توکامیابی کی کہانیاں لکھتا گےا۔ ٹیکسٹائل کی وزارت، حکومت ہند نے حمیرا کو محکمہ کی طرف سے منعقد کیے جانے والے تمام تربیتی پروگراموں کے لیے بطور ماسٹر ٹرینر نامزد کیا۔ اسی دوران ایک واقعے کے دوران حمیرا ایک شخص کے دھوکے کا شکار ہو گئی اور وہ شادی اور خاندانی ڈھانچے کی دلچسپی سے بیزار ہو گئی۔ حمیرا نے اپنی تمام تر توجہ، جوش، ولولہ اور طاقت اپنے کام میں لگا دی۔ تقریباً ڈیڑھ دہائی کی اپنی زری زردوزی کی دنیا میں اس نے ہزاروں خواتین کو ہنر مند اور خود انحصار بنایا ہے۔ ملک کی راجدھانی دہلی سے لے کر ہر بڑے شہر تک اب ان کے فن کے جھنڈے لہراتے نظر آتے ہیں۔ اپنے کام کی دنیا میں خوش اور مطمئن رہنے والی حمیرا کا کہنا ہے کہ اگر تعاون ضروری ہے تو ایسے ساتھیوں کا تعاون بھی ضروری ہے جن میں جوش، ولولہ اور اچھی توانائی ہو، جن کے ساتھ مل کر کامیابی کا راستہ آسان بنایا جا سکتا ہے۔
خوشی سے پہلے آجاتی ہے نئی مشکل ،لیکن توڑ نہیں پائےں: ڈاکٹر کسم بوراسی
ایک مکمل خاندان، دادا، والد، ماں سے لے کر بھائیوں تک خوشگوار زندگی،کسم اپنی پڑھائی سے باہر آئی اور اسسٹنٹ پروفیسر بننے کا اعزاز اس کے ساتھ جڑ گیا۔ ہندی زبان میں مہارت رکھنے والی کسم کالج کے طلباءکو ہندی کی مہارت فراہم کرنے کی ذمہ دار تھیں۔ ان کی دوڑ ان کے آبائی شہر دھار سے شروع ہو کر دور دراز کی تحصیل مناور اور پھر دھام پوری تک گئی۔ خاندان سے دور رہتے ہوئے خود کو مضبوط کرنے کا عمل شروع ہوا۔ ان مشکل دنوں میں انجینئر راجیش بوراسی کے ساتھ ان کی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہوا۔ خوشی کی رفتار کو برقرار رکھتے ہوئے، کسم نے اس عرصے کے دوران ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی۔ تحصیل سروس سے فارغ ہونے کے بعد ضلع ہیڈ کوارٹر دھار میں تقرری بھی حاصل کی۔ لیکن اسی دوران ان کے شوہر راجیش نے انہےں اچانک چھوڑ دیا۔ ڈاکٹر کسم کے لیے اب راجیش کی طرف سے تسلی کے نام پر نشانےاںامن اورنمن رہ گئے تھے۔ وہ بھاری دل کے ساتھ زندگی کی گاڑی کو کھینچ رہی تھی کہ ایک حادثے نے اس کے چھوٹے بیٹے نمن کے ساتھ اس کی خوشیوں سے جدا کر دیا۔اب اور اماں کے تعاون سے وہ آگے بڑھنے لگی اور خود کو تعلیم کے لیے وقف کر دیا اور اپنے دکھ بھولنے لگی۔ حالات زندگی میں کچھ استحکام بننے لگے تھے، لیکن خوشی اتنی آسان نہیں ہے۔ پہلے بابا ہمیں چھوڑ گئے اور کچھ عرصے بعد اماں بھی اس دنیا سے چلی گئیں۔ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ زندگی کی مشکلات میں سہارا دینے والے بھائی نے بھی ڈاکٹر کسمکو تنہا چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ شوہر، بیٹے، باپ، ماں اور بھائی سے الگ ہونے کے بعد اب ڈاکٹرکسمنے اپنے اکلوتے بیٹے پر پوری دنیا لگا دی ہے۔ وہ زندگی کو سکون، راحت اور سکون دینے کے لیے اپنے طالب علموں کے ساتھ وقت گزارنا پسند کرتی ہےں۔ ڈاکٹر کسم کہتی ہیں کہ زندگی کی بقا کے لیے رشتے بہت ضروری ہیں لیکن فطرت کے رسم و رواج کو قبول کرنا بھی ضروری ہے۔ مشکلیں آتی ہیں لیکن سچی لگن اور محنت ہر کامیابی کی سیڑھی بن جاتی ہے۔