جس عہد سیاست نے یہ زندہ زباں کچلی
اس عہد سیاست کو مرحوم کا غم کیوں ہے
غالبؔ جسے کہتے ہیں اُردو ہی کا شاعر تھا
اُردو پہ ستم ڈھا کر غالبؔ پر کرم کیوں ہے
اُردو اور فارسی کے بے باک شاعر، مجاہد آزادی، ہر دل العزیز مرزا اسد اللہ خان جنہیں دنیا غالب کے نام سے جانتی ہے آج ان کا یوم پیدائش ہے۔مرزاغالبؔ 27 دسمبر 1797 کالا محل، آگرہ کے مغل خاندان میں پیدا ہوئے ۔دنیا کے بارے میں مرزا غالب کا نظریہ تھا کہ دنیا ایک کھیل کے میدان کی مانند ہے جہاں ہر کوئی کسی بڑی چیز کی بجائے کسی نہ کسی دنیاوی سرگرمیوں اور خوشیوں میں مصروف ہے جیسا کہ انہوں نے لکھا:
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتاہے شب و روزتماشا میرے آگے
اگ رہاہے در و دیوار سے سبزہ غالبؔ
ہم بیاباں میں ہیںاور گھر میں بہار آئی ہے
مرزا غالبؔ نے 11 سال کی عمر میں شاعری شروع کی۔اردو کے ساتھ ساتھ گھر میں فارسی اور ترکی بھی بولی جاتی تھی۔ انہوں نے کم عمری میں فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔انہوں نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میںاشعار لکھے۔ آج غالبؔ نہ صرف برصغیرہند و پاک میں بلکہ دنیا بھر میں مقبول ہیں۔اُردو اور فارسی کا تعلق غالب سے ہی نہیں بلکہ تمام غیر مسلم شعراء، ادباء بلکہ پورے بھارت سے ہیں اور تمام بھارتیوں نے اس بھارت کی بیٹی اور ہندی کی بہن کو سینچا اور سنوارا ہے لیکن اُردو کے فروغ کے لئے آج ویسی کوششیں نہیں ہو رہی ہیں، یعنی غالب سے محبت ہے ، محبت کا دعویٰ بھی ہے لیکن ان کی زبان سے یعنی اُردو ، فارسی جو اُن کا اُڑھنا بچھونا ، لباس تھا ان کی زبان یعنی بھارت کی زبان بھارتیوں کی زبان سے بے اعتنائی۔ ایسا آج بھارت میں کیوں؟
آج اُردو کے تئیں جو تعصبانہ رویہ حکومتوں نے اپنا رکھا ہے وہ مخفی نہیں ہے۔ باقاعدہ سرکولر جاری کر سرکاری دفاتر میں اُردو الفاظ کا استعمال نہ کرنے کو کہا جارہا ہے۔اس سے زیادہ بدنصیبی کی کیا بات ہو سکتی ہے کہ جو زبان پورے ملک کو باندھنے کا کام کر رہی ہے اسے ہی سرکاری دفاتر میں بول چال اور کام کاج میں نہ لانے کو کہا جارہا ہے۔ تمام اُردو کے ادارے ، دفاتر اور مختلف صوبوں کی اُردو اکیڈمیاں ، اُردو لائبرریاں قریب قریب بند ہونے کے دہانے پر ہیں یا سرکاری مالی تعاون (گرانٹ ان ایڈ) کی کمی کی وجہ سے آخری سانسیں لے رہی ہیں یا انہیں اس حالت میں کر دیا ہے کہ وہ بند ہونے کی کگار پر ہیں۔حکومتی گرانٹ بند کر دی گئیں ہیں، ایک طرح سے گلا گھونٹا جارہا ہے۔
اُردو کے نام پر بنائے گئے ادارے تو خود اُردو کو ڈوبانے پر تلے ہوئے ہیں۔اُردو اکیڈمیاں جو خالص اُردو زبان کے تحفظ اور اس کی بقاء کے لئے تشکیل دی گئی ہیں اب وہاں پر بھی اُردو کی بقاء و فروغ کو چھوڑ کر سب کچھ برسر اقتدار پارٹی کو خوش کرنے کے لئے کیا جارہا ہے۔کہیں قوالی کی محفلیں ہوتی ہیں تو کہیں غزلوں اور گیتوں کے پروگرام۔ہر جگہ اُردو کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔ پوسٹر-بینرس ، پمپلیٹس سے اُردو ، اُردو رسم الخط سب غائب ہوتا ہے اور اُردو کی جگہ’’ رومن اُردو‘‘ نے لے لی ہے اور اس طرح کے پروگراموں میں چونکہ اُردو نہیں ہوتی تو تلفظ کا ہونا یا صحیح الفاظ کا تلفظ کے ساتھ استعمال یا ادائیگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
پہلے بھی کئی مرتبہ اس طرح کی باتیں سرکاری اور غیر سرکاری طور پر کہی گئیں ہیں ۔حال ہی میں پولیس ہیڈکوارٹر بھوپال مدھیہ پردیش سے ایک لیٹر جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ محکمہ پولیس میں اُردو اور فارسی الفاظ کا استعمال بکثرت ہو رہا ہے ۔اب سے ان الفاظ کی جگہ ہندی کے الفاظ کا استعمال کیا جاجئے۔ اسی طرح راجستھان حکومت نے بھی سرکولر جاری کیا ہے۔ راجستھان اُردو اکیڈمی کو پہلے ہی بند کر دیا گیا ہے۔ جھارکھنڈ حکومت نے تو آج تک اُردو اکیڈمی کی تشکیل ہی نہیں کی ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ اُرددو کے تئیںنفرت اور تعصب کس قدر بڑھ چکا ہے ۔اُردو کو ختم کرنا بھارت کی گنگا جمنی تہذیب ، آپسی بھائی چارہ اور آپس داری کو ختم کرنے کے مترادف ہوگا۔
قابل ذکر ہے کہ آج موجودہ حکومتیں تعصب کی بناء پر جتنی بھی ظلم زیادتیاں اُردو کے ساتھ کر رہی ہیںجیسے کہ اُردو الفاظ کا سرکاری دفاتر میں استعمال نہ کرنے کا سرکولر جاری کرنا، اُردو اداروں خاص کرکے اُردو اکیڈمیوں کو بند کرنا یا گرانٹ ختم کر دینا، اُردو طلباء کے لئے اساتذہ کی تقرری نہ کرنا، بُک نگم کا نصاب کی کتابیں خاص طور پر سائنسی علوم اور حساب وغیرہ کی کتاب اُردو میں مہیا نہ کراناغرضیکہ جتنے بھی مسئلے مسائل اُردو کے فروغ و بقاء کو روکنے کے لئے سرکاری اور غیر سرکاری طورپر حکومتیں خود کھڑے کرتی ہیں ۔اس کے لئے تمام اُردو داں حضرات-محبان اُردو کو ایک پلیٹ فارم پر آکر آواز بلند کرنا ہوگی اور اپنے حقوق کے لئے لڑائی لڑنا ہوگی۔
آج ہر طرف مشاعروں کا دور دورہ ہے ۔بھارت میں بھی اور بیرون میں بھی مشاعروں کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ بھارتیہ شعراء بھی بیرون کے مشاعروں میں شرکت کرتے ہیں لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ پروگرام کے فلیکس و بینر پر اُردو یا تو ہوتی ہی نہیں ہے یا محض سرخی بن کر رہ جاتی ہے ۔اُردو کے نام پر ہو نے والے پروگرام میں اُردو کی جگہ رومن اُردو یا علاقائی زبان لے لیتی ہے لیکن اُردو داں حضرات کے ماتھے پر شکن نہیں آتی اور یہ سب کچھ اُردو داں اور محبان اُردو کے سامنے ہوتا ہے۔
اُردو زبان جو کہ بھارت کے خمیر سے بنی ہے ،محبت کا درس دے رہی ہے ۔گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے۔ اپنے ہی ملک میں انصاف کی گہار لگا رہی ہے ۔ اس کے فروغ سے ہی ملک کی سالمیت سے برقرار ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اُردو پڑھے، اُردو لکھے، اُردو بولے اور سب سے اہم اُردو رسم الخط اختیار کریں۔
واضح رہے کہ اردو زبان کی جو تاثیر ہے وہ کسی دیگر زبان میں نہیں اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ غالبؔ جیسے فارسی کے عظیم شاعر جنہوں نے فارسی میں نہ جانے کتنے اشعار لکھیں ہیں۔ لیکن ان کو شہرت اس وقت ملی جب انہوں نے اردو میں اشعار لکھے۔غالبؔ نے اپنے آخر وقت تک اردو اور فارسی میں اشعار لکھے۔
بھارت کی سرزمین جو کہ اس زبان کی جائے پیدائش ہے ،اپنی اس بیٹی کے لئے تنگ ہوتی جارہی ہے۔ ۔حالانکہ یہی زبان اپنی جائے پیدائش سے نکل کر دوسری مملکتوں میں اپنا جادو جگا رہی ہے ،اوراپنی سحر بیانی سے لوگوں کے دل و دماغ کو فتح کر رہی ہے۔لیکن اپنے ہی ملک میں اسے ختم کرنے کی سازش رچی جارہی ہے۔ ایک مخصوص پالیسی اور خاص ذہنیت کے تحت اردو کو سرکاری اور عوامی زندگی سے رفتہ رفتہ نکالا جارہا ہے۔ بہرحال اردو کی خدمت کرتے ہوئے 15 فروری 1869کوایک بلند پایا شاعر مرزا غالبؔاس دنیا کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ گئے۔لیکن آج ان کے یوم پیدائش پر ہمیں ان کے مشن کو آگے بڑھانے کا عزم کرنا ہوگا۔ ہمیں بھی عہد کرنا چاہئے کہ ہم بھی تادم حیات اُردو کی خدمت کریں گے، یہی صحیح معنوں میں تمام محبان اُردو جیسے مرزا غالب، منشی نول کشور، برج نارائن چکبست، فراق گورکھپوری، منشی پریم چند، جگناتھ آزاد، آنند نارائن ملّا، منشی ہر سکھ رائے، ہری ہردت، سدا سکھ لعل، پنڈت دھرم نرائن بھاسکر، پنڈت میلا رام وفا، پنڈت رتن ناتھ سرشاروغیرہ کو خراج عقیدت ہوگی۔ایک بار پھر ہم مرزا اَسد اللہ خان غالبؔ کو ان کے یوم پیدائش پر یاد کرتے ہیں انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
یہ بات بھی عیاں ہے کہ اگرچہ غالب کے نام سے ڈھیر سارے ادارے بنائے گئے ہوں چاہے غالب اکیڈمی ہو، غالب لائبریری ہو، غالب فائونڈیشن ہو یا دیگر کوئی بھی ادارہ غالب کے نام سے منسوب کر لیا جائے اس پر غالب کا نام تو رہ سکتا ہے لیکن جب تک اُردو ، عربی ،فارسی نہیں ہوگی غالب کا مشن ادھورا ہی رہے گا انہیں سچی خراج عقیدت تب ہی ہو سکتی ہے جبکہ اُردو ، عربی اور فارسی کی باقی رہے ۔یہی صحیح معنوں میں غالب اور ان جیسے ہزاروں محبان اُردو کو خراج عقیدت ہوگی۔