بھوپال :20؍ستمبر (پریس ریلیز)ہمارے ملک بھارت کے حالات پچھلے چند سالوں سے خوشگوار نہیں رہے ہیں۔انسانون کی ذہنیت اتنی گر گئی ہے یا یوں کہا جائے کہ بھولی بھالی عوام کے کانوں میں اتنا زہر گھول دیا گیا ہے کہ انسانوں کو اب زبان سے بھی نفرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔جو زبان کانوں کو سننے میں بھی لذت دیتی ہے، جو بھارت کی تہذیب کو ایک دھاگے میں پیروئے ہوئے ہے آج اسے ہی ختم کرنے کی بات کہی جارہی ہے۔یہ قابل افسوس ہے۔پہلے بھی کئی مرتبہ اُردو الفاظ کو ختم کرنے کی باتیں کہی جاتی رہی ہیں لیکن حال ہی میں سینٹر بورڈ آف سکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای) نے جو حکم نامہ جاری کیا ہے اس سے اُردو کے طلباء و طالبات حیران و پریشان ہی نہیں سکتہ میں ہیں۔غور طلب ہے کہ سنٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن نے گذشتہ کل یہ آرڈر جاری کیا ہے کہ امتحانات کے سوالیہ پرچے اب مکمل طور پر انگریزی یا ہندی میں فراہم کئے جائیںگے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، سی بی ایس ای نے ہدایت دی ہے کہ کلاس 10 اور 12 کے سوالیہ پرچے صرف انگریزی یا ہندی میں پرنٹ کئے جائیں،نیز اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ بورڈ کی اجازت کے بغیر ان دونوں زبانوں کے علاوہ کسی اور زبان میں لکھی گئیںکاپیاں چیک نہیں کی جائے گی۔ مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ بورڈ کی طرف سے جس زبان کے لکھنے کی اجازت نہ ہو اس زبان میں جوابی پرچہ لکھنے والے طلباء کو اس مضمون میں بغیر نمبر دئیے ان کے نتائج کا اعلان کر دیا جائیگا۔اس فیصلے سے اردو میڈیم (سی بی ایس ای) اسکولوں میں داخلہ لینے والے ہزاروں طلباء و طالبات کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گااور اس فیصلے سے سب سے زیادہ جو طلباء متاثر ہوں گے وہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (MANUU) اور اس جیسے تمام اداروں کے طلباء و طالبات ہیں جہاں طلباء کو اردو میں تعلیم دی جاتی ہے۔ اب، ان طلباء کو انگریزی یا ہندی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔نیز پرچہ امتحان میں بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ جو طلباء اُردو میں مہارت رکھتے ہیں انہیں اُردو میں ہی پرچہ حل کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ہندی یا انگریزی میں سوالیہ پرچوں کو سمجھنے میں خاصی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ ے گا، کیونکہ طلباء اردو میں حل کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔
سی بی ایس ای کے اس فیصلے سے بورڈ کی اُردو کے تئیں نفرت واضح ہوگئی ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ جہاں ہندی اور انگریزی زبان میں پرچے فراہم کئے جارہے ہیں وہاں اُردو کو بھی شامل کیا جائے۔یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اردو دوسری زبانوں کی مانند محض ایک زبان ہی نہیں بلکہ اس کے برعکس ایک تہذیب بھی ہے، ایک ثقافت بھی ہے۔ انسانی شخصیت کی تشکیل میں اگر اردو زبان کی بھی کارفرمائی ہو تو شخصیت کی دلکشی و دلرُبائی دو چند ہو جاتی ہے۔ اس سے زبان و بیان میں تو خوبصورتی آتی ہی ہے کردار میں بھی جاذبیت اور کشش پیدا ہو جاتی ہے۔یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے کہ بھارت کے آئین کے آٹھویں شیڈول میں بھارت کی 22 سرکاری زبانوں کی فہرست میں شامل اردو کو سی بی ایس سی کے ذریعہ مٹانے کی جو کوشش کی گئی ہے یہ بھارت کی قومی تعلیمی پالیسی (NEP) 2020 کے خلاف ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی میں تین زبانوں کا فارمولہ ہے جس کے تحت طلبا کو کم از کم تین زبانیں سیکھنے کی ضرورت ہے جس میں سے ایک طالب علم کی مادری زبان یا علاقائی زبان بھی شامل ہے۔بھارت کے شمالی خطہ کے کئی علاقوں جیسے لکھنو، دہلی اور انکے آس پاس میں رہنے والوں کی مادری زبان اردو ہے،اسی طرح کسی بھی زبان تیلگو ہے ، کسی کی مراٹھی تو کسی کی بھوجپوری ہے اور طلباء کو اپنی مادری زبان میں پڑھنے میں کا پورا حق قومی تعلیمی پالیسی میں بھی دیا گیا ہے ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سی بی ایس ای بورڈ قومی تعلیم پالیسی کو نظر انداذ کر رہا ہے؟
سی بی ایس ای کا دسویں جماعت کے اردو سوالیہ پرچوں کو ختم کرنے کا فیصلہ حکومت کی قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے وژن کے منافی ہے۔ ایک طرف حکومت تمام بھارتی زبانوں، بشمول اردو، میں تعلیم کو فروغ دے رہی ہے اور قومی تعلیمی پالیسی (NEP) 2020 میں مادری زبان کے ذریعے تعلیم پر زور دیا جا رہا ہے۔ لیکن سی بی ایس ای کا اردو کے سوالیہ پرچوں کو ختم کرنا ان کوششوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف تعلیمی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے بلکہ ان طلباء کی حوصلہ شکنی بھی کرتا ہے جو اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سینٹرل بورڈ کے اس فیصلے کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ بھارت کی سرزمین جو اُردو زبان کی جائے پیدائش ہے،اپنی اس بیٹی کے لئے تنگ ہوتی جا رہی ہے۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہی اُردو دوسری مملکتوں میں اپنا جادو بکھیر رہی ہے لیکن اپنے ہی ملک میں اسے ختم کرنے کی سازش رچی جارہی ہے۔ ایک مخصوص پالیسی اور خاص ذہنیت کے تحت اردو کو سرکاری اور عوامی زندگی سے رفتہ رفتہ نکالا جارہا ہے اور ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت اردو کے خلاف پروپیگنڈا تیز کردیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں آج ایک تکلیف دہ صورتحال اپنی تمام تر بدشگونیوں کے ساتھ ہمارے سامنے کھڑی ہو گئی ہے اور ستم ظریفی دیکھئے کہ بھارت کو آزادی دلانے والی زبان اردو کی جگہ انگریزوں کی زبان جنہوںنے ہمارے ملک کو غلام بنایا تھا، غلامی کی زبان انگریزی کو دی جا رہی ہے۔اُردو کے ساتھ تعصب کا عالم یہ ہے کہ کبھی سرکاری دفاتر میں سے اُردو الفاظ کو ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے،تو کبھی تعصب کی بناء پر اُردو کو سرکاری اشتہارات سے غائب کر دیا جاتا ہے اور اب خالص تعلیمی ادارے سینٹر بورڈ سے اُردو جیسی مقدس زبان سے طلباء کو محروم رکھنے کی بات کہی گئی ہے جو ناقابل برداشت ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اُردو کے تئیں نفرت کس قدر بڑھ چکی ہے۔سی بی ایس ای بورڈ کے ذریعے گنگا جمنی تہذیب کا خاتمہ کیا جارہا ہے۔بورڈ کا یہ فیصلہ بھارتیہ تہذیب کی شان اردو کو ختم کرنے، ‘ہمارے نغموں کی جان اردو’ کو ختم کرنے کا فیصلہ ہے۔ یہ حکم عالمی سطح پربھارت کو متعارف کرانے والے غالب کے خلاف ہے۔جس کی ہم سب بھارتیہ اور محبان اُردو سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور یہ سی بی ایس ای بورڈ سے یہ کہتے ہیں کہ ایسے احمقانہ فیصلے کرکے خالص تعلیمی ادارے کو نفرت کی سیاست کا اڈا نہ بنائیں۔کل جب سی بی ایس ای بورڈ نے یہ فیصلہ سنایا تو طلباء سے لے کر اساتذہ تک سب پر سکتہ طاری ہوگیا۔طلباء کے والدین اپنے بچوں کے مستقبل کے تئیں فکرمند ہوگئے ۔لیکن اس سب کے باوجود اُردو داں حضرات خاموش کیوں ہیں؟ دہلی جیسی جگہ میں بیٹھے ہوئے بڑے بڑے اُردو حضرات نے اس نا انصافی پر اب تک کوئی احتجاجی شکل کیوں اختیار نہیں کی؟ جن کی روزی روٹی اُردو ہے اور جو اُردو کے تحفظ و بقاء کے نام پر لوگوں کو دھوکا دے رہے ہیں۔محبان اُردو سے درخواست ہے کہ بھارت کو توڑنے والے اس فیصلے خلاف دہلی کے جنتر منتر پر احتجاج کریں اس کے علاوہ ملک گیر سطح پر بھی احتجاج کیا جانا چاہئے۔اسلئے کہ اُردو پورے بھارت کو جوڑنے کا کام کر رہی ہے اور نفرت کی سیاست کرنے والے بھارت کے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ اُردو کو ختم کرنا بھارت کی تہذیب و تمدن، گنگا جمنی تہذیب، بھارت کی ایکتا و اتحاد کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔