لندن 16جنوری :قطر کے وزیرِ اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان التھانی نے قطر میں بدھ کو رات گئے ایک پریس کانفرنس کے دوران تصدیق کی کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ معاہدے کا آغاز اتوار 19 جنوری سے ہو گا اور اس کی مخصوص ٹائمنگ پر تاحال فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’امید ہے کہ یہ جنگ کے اختتام کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔‘ دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی اس معاہدے کی تصدیق کی ہے۔ نائب وزیر اعظم کملا ہیرس اور وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کے ہمراہ پریس کانفرنس میں انھوں نے کہا کہ اس معاہدے کے نتیجے میں ’غزہ میں لڑائی رک سکے گی، فلسطینی شہریوں کو انسانی امداد کی فراہمی ممکن بنائی جائے گی اور یرغمالیوں کو ان کے خاندانوں کے ساتھ 15 ماہ کی قید کے بعد ملنے کا موقع ملے گا۔‘ ان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے تک پہنچنا ’آسان نہیں تھا اور ان کے تجربے کے مطابق یہ سب سے مشکل مذاکرات میں سے ایک تھے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ایران گذشتہ دہائیوں کے مقابلے میں خاصا کمزور ہے اور حزب اللہ بھی ’بری طرح کمزور ہو چکا ہے‘ جبکہ حماس نے بھی اپنے متعدد سینیئر رہنماؤں اور جنگجوؤں کی ہلاکت کے بعد اس معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔ تاہم اب بھی بہت سے اہم نکات موجود ہیں جو اسے مستقل جنگ بندی کا معائدہ بننے سے روک سکتے ہیں۔ اس معاہدے کی تفصیلات کے حوالے سے تاحال باضابطہ طور پر اعلان تو نہیں کیا گیا ہے لیکن بی بی سی کو اس حوالے سے مذاکرات سے جڑے اہلکاروں نے معاہدے کی تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔ امریکہ نے غزہ میں 15 ماہ سے جاری تنازع کے خاتمے کے لیے امن معاہدے کے لیے کچھ وسیع شرائط وضع کی تھیں۔ اس کے بعد سے اسرائیل اور حماس کے حکام قطر، مصر اور امریکہ کے ثالثوں کے ذریعے تفصیلات پر بات چیت کر رہے تھے۔ معاہدے کا مسودہ تین مراحل پر مشتمل ہے جس کے بارے قطری وزیرِ اعظم کو امید ہے کہ یہ ’مستقل جنگ بندی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔‘ خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے ایک فلسطینی عہدیدار کے مطابق مجوزہ امن منصوبے کا پہلا مرحلہ 42 دن یا 60 دن تک جاری رہنے والی جنگ بندی ہے۔ایک فلسطینی عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ حماس معاہدے کے پہلے مرحلے میں 33 یرغمالیوں کو رہا کر دے گی۔ اس کے بعد آئندہ ہفتوں میں مزید یرغمالیوں کی رہائی کا عمل روک دیا جائے گا۔