نئی دہلی28اگست: اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے ہلدوانی فساد معاملے میں پولیس کی بربریت کا شکار ہوئی 6 خواتین سمیت 50 ملزمین کی ضمانت عرضی پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کی عرضی منظور کر لی ہے۔ ہائی کورٹ نے ذیلی عدالت کو ہدایت دی ہے کہ ملزمین کو ایک ذاتی مچلکہ اور مشروط ضمانت کے ساتھ رِہا کیا جائے۔ ان ملزمین کو فروری کے دوسرے ہفتہ میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اتراکھنڈ ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ (جسٹس پنکج پروہت اور جسٹس منوج کمار تیواری) نے یہ فیصلہ سنایا۔ بنچ نے 24 اگست کو اس معاملے میں فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا اور آج 50 ملزمین کو ضمانت پر رِہا کرنے کا حکم صادر کیا گیا۔ پچاسوں ملزمین کی جانب سے ہائی کورٹ میں مجموعی طور پر چھ عرضیاں داخل کی گئی تھیں جن پر سات سماعتیں ہوئیں۔ عدالت نے آج اپنے زبانی فیصلے میں ملزمین کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کیا اور عدالت کا تحریری فیصلہ جلد ہی فریقین کو مہیا کرایا جائے گا۔ متاثرین کی قانونی مدد کرنے والے ادارہ جمعیۃ علما ہند کی طرف سے بحث کرتے ہوئے سینئر ایڈووکیٹ نتیا راما کرشن نے کہا کہ ایجنسی نے ملزمین کو گرفتار کرنے کے بعد ان کے خلاف یو اے پی اے (انسداد غیر قانونی سرگرمی ایکٹ) لگایا تھا، تاکہ ملزمین کو ضمانت سے محروم کیا جا سکے اور جانچ ایجنسی کو جانچ کے لیے زیادہ وقت دیا جا سکے۔ جسٹس پنکج پروہت اور جسٹس منوج کمار تیواری کو سینئر ایڈووکیٹ نتیا راما کرشن نے یہ بھی بتایا کہ سیشن کورٹ نے ملزمین کی ڈیفالٹ ضمانت عرضی خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ لوک سبھا انتخاب کی وہج سے فرد جرم داخل نہیں کیا جا سکا۔ وقت رہتے ملزمین کے خلاف معاملہ درج کر لیا جائے، اس لیے پولیس کو زیادہ وقت دینا غیر قانونی نہیں ہے۔ ایڈووکیٹ نے یہ بھی کہا کہ سیشن کورٹ کا یہ اظہار غیر آئینی اور غیر ضروری ہے۔ قانون کے مطابق گرفتار ملزم کے خلاف وقت پر فرد جرم داخل کرنا لازمی ہے، ورنہ ملزم ڈیفالٹ ضمانت کا حقدار ہوگا، ملزم پر لگے الزام کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کے وکیل نے سماعت کے دوران کہا کہ سپریم کورٹ اور کئی ہائی کورٹ نے اپنے فیصلوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ ڈیفالٹ ضمانت ملزم کا آئینی حق ہے جسے اس سے چھینا نہیں جا سکتا۔ اس کے باوجود ڈیفالٹ ضمانت کا حق ملزم کو ملتا رہے گا۔ اس معاملے میں ہائی کورٹ سے ضمانت کے بعد پولیس نے سیشن کورٹ میں فرد جرم داخل کر دیا ہے۔ سینئر ایڈووکیٹ نتیا راما کرشن کا کہنا ہے کہ جانچ ایجنسی نے 90 دنوں کی مدت پوری ہونے کے بعد عدالت میں فرد جرم داخل نہیں کیا اور عدالت سے 28 دن مزید مانگے جو قانوناً غلط ہے۔