بروز بدھ بعد نماز عشاء دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں زیر تعلیم معھد الدراسات الاسلامیہ بھوپال سے فارغ التحصیل طلبہ عزیز کی معرفت یہ اندوہناک خبر ملی کہ خانوادہ حسنی کے عظیم سپوت و چشم و چراغ اور مادر علمی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کے ناظر عام اور پندرہ روزہ عربی جریدے الرائد کے چیف ایڈیٹر استاد گرامی قدر حضرت مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندویؒ نور اللہ مرقدہ کے فرزند ارجمند حضرت مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ ایک سڑک حادثے میں اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں اور فانی دینا کو سونی کر کے ہم سے رخصت ہو گئے ہیں ،اور اپنے اسلاف سے عالم ارواح میں جا ملے ہیں۔ اناللہ واناالیہ راجعون للہ مااخذ ولہ مااعطی وکل شئ عندہ بأجل مسمی۔
حضرت مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی ایک متواضع منکسر المزاج اور سادگی پسند انسان تھے اللہ تبارک و تعالی نے ان کے اندر بے پناہ خوبیاں ودیعت کر رکھی تھیں، وہ جس عظیم المرتبت اور رفیع الشان خانوادہ کے فرد فرید تھے اس خانوادے کو اللہ تبارک و تعالی نے صدیوں سے دین و ملت کی خدمت کے لیے قبول کر رکھا ہے دعوت و ارشاداعلاءکلمہ اللہ تصنیف و تحقیق درس و تدریس اور دین اسلام کی ترویج و اشاعت اس خانوادے کا طرہ امتیاز ہے ہم نے اپنے رائے بریلی کے سہ سالہ طالب علمی کے دور قیام میں اس خانوادہ کے ہر فرد کو بنظر چشم دیکھا ہے اور سبھی کو یکتائے روزگار زمانہ پایا ہے خلوص و للہیت میں یہ خانوادہ اپنا نظیر نہیں رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے اس خانوادہ کے بزرگوں کو چہار دانگ عالم میں قبولیت عامہ عطا فرمائی ہے۔
حضرت مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ بہت اچھے حافظ قرآن تھے زبردست لب ولہجہ میں قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتے تھے، عربی اردو کے صاحب طرز ادیب تھے اور اپنے والد ماجد حضرت مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی کی طرح کم گو اور سادگی پسند تھے ، ان کی شخصیت کے اندر اللہ تبارک و تعالی نے بڑی جاذبیت وکشش رکھی تھی وہ اپنے کام سے کام رکھتے تھے بے جا شہرت و ناموری کے بالکل قائل نہ تھے ہم نے ان کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور ان کی مجلسوں میں شریک ہو ۓ ہیں ،اور ہمیشہ ان کو نفع بخش پایا ہے اور طلبہ کے لیے ہمدردر پایا ہے۔
سن 2003 کی بات ہے ،راقم رائے بریلی سے بذریعہ لوکل ٹرین لکھنؤ جا رہا تھا مدرسہ ضیاء العلوم تکیہ کلاں کے بےشمار طلبہ بھی اس ٹرین میں سوار تھے راستے میں گھنے کہرے کی وجہ سے ٹرین ایک چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر رک گئی، ریل میں کافی بھیڑ تھی ، بڑی کشمکش کا ماحول تھا ، اپنے ایک رفیق درس سے معلوم ہوا کہ مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی ؒ بھی اس ٹرین میں موجود ہیں ، ہم نے پہلی دفعہ مولانا کی اس پرکشش شخصیت کو دیکھا ، اور دیکھتے ہی رہے ، اتنی بڑی شخصیت اور اس طرح سادگی کے ساتھ ریل میں کھڑے ہیں، مولانا نے ہمیں دیکھتے ہی علمی گفتگو شروع کی اور کھڑے کھڑے ہی اپنے علمی خزانہ سے فیضیاب کرنے لگے اور تقریبا 2 گھنٹے تک طلبہ عزیز کی علمی تشنگی کو بجھاتے رہے اور پھر لکھنؤ تک کا سفر کیسے پورا ہوگیا پتہ ہی نہ چلا۔
ہزاروں سال اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
میں مولانا کی شخصیت سے اس قدر مرعوب ہوا کہ جب بھی مولانا سے تکیہ میں ملاقات ہوئی، مولانا سے ملنا اوراستفادہ کرنا اپنی سعادت سمجھتا رہا۔
ابھی چند سال قبل ہی دارالعلوم ندوۃ العلماء کی شوری نے ان کو دارالعلوم ندوۃ العلماء کا ناظر عام منتخب کیا تھا، اس حوالے سے بھی انہوں نے مادر علمی کی خوب خدمت کی ، مزیداس تعلق سے انہوں نے متعدد ممالک کے اسفار بھی کیے اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کو متعارف کرانے میں اور اس کے مشن کو عام کرنے میں اپنا بھرپور تعاون پیش کیا اسی طرح عربی جریدے الرائد کے ذریعے سے انہوں نے اسلام کی ترویج و اشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا ان کی تحریریں بڑی سادہ دلکش و دلنشیں اور سلیس ہوا کرتی تھیں رکن الاطفال کے نام سے انکا جو کالم نکلتا تھا وہ عربی زبان و ادب کےمبتدی طلبہ کے لیے بڑامفید اور فائدہ مند ہوتا تھا، عربی زبان سے شد بد رکھنے والے طلبہ اسے بڑے شوق سے پڑھا کرتے تھے ، اسی طرح وہ اردو میں بھی بہت اچھا لکھا کرتے تھے اور ان کی تحریریں توجہ کے ساتھ پڑھی جاتی تھیں ، اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے وہ ان کی بال بال مغفرت فرمائے اور خانوادہ حسنی کو بالخصوص ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے اور مادر علمی دارالعلوم ندوۃ العلماء کو ان کا بہترین نعم البدل عطا فرمائے مولانا کے دو فرزند ارجمند ہمارے زمانہ طالب علمی میں مدرسہ ضیاء العلوم کے ابتدائی درجوں کے طالب علم تھے بڑے محنتی اور اپنے خاندانی ورثہ کے حامل اور جانشینوں میں سے تھے ، اب دونوں ایک جید عالم دین ہیں اور اپنے آباء و اجداد کی طرح امت مسلمہ اور اہل علم کی رہنمائی کر رہے ہیں اللہ پاک ان کی کاوشوں کو شرف قبولیت سے نوازے اور اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائےآمین۔
محمد انور ندوی
استاد معھد الدراسات الاسلامیہ بھوپال