نئی دہلی، 13 اگست (یو این آئی) ہندوستان کی اولمپک تاریخ میں انفرادی تمغہ جیتنے والوں کی فہرست میں بہت سے عظیم کھلاڑی شامل ہیں جن کی کہانیاں آج بھی کھیلوں کے شائقین کو یاد ہیں۔ اس فہرست میں دوسرا نام خشابا دادا صاحب جادھو یعنی کے- ڈی- جادھو کا ہے، جنہوں نے 1952 کے ہیلسنکی اولمپک کھیلوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرکے ہندوستانی کشتی کو دنیا کے نقشے پر نمایاں کیا۔ جادھو بلا شبہ ہاکی میں گولڈ میڈل جیتنے والی ٹیموں کے علاوہ آزاد ہندوستان کے ابتدائی ہیروز میں سے ایک تھے۔خاشابہ دادا صاحب جادھو ایک ہندوستانی فر ی اسٹائل پہلوان کھلاڑی طور پر مشہور تھے جنہوں نے ہیلسنکی میں 1952 کے سمر اولمپکس میں کانسہ کا تمغہ جیتا تھا اور اس طرح وہ ہندوستان کے لیے پہلا اولمپک تمغہ جیتنے والے کھلاڑی بن گئے۔نارمن پرچرڈ کے بعد، جنہوں نے نوآبادیاتی ہندوستان کے تحت 1900 میں ایتھلیٹکس میں چاندی کے دو تمغے جیتے تھے، خشابہ دادا صاحب جادھو آزاد ہندوستان کے پہلے انفرادی ایتھلیٹ تھے جنہوں نے اولمپکس میں تمغہ جیتا تھا۔ جادھو سے پہلے کے برسوں میں، ہندوستان نے صرف ٹیم کھیل، یعنی فیلڈ ہاکی میں گولڈ میڈل جیتا تھا۔
خاشابہ کو پیار سے پاکٹ ڈائنمو” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ریاست مہاراشٹر کے ستارہ ضلع کے کراڈ تعلقہ کے گولیشور نامی گاؤں میں 15 جنوری کو پیدا ہوئے کے ڈی جادھو مشہور پہلوان دادا صاحب جادھو کے پانچ بیٹوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ انہوں نے 1940 اور 1947 کے درمیان ستارہ ضلع کے کراڈ تعلقہ کے تلک ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ وہ ایک ایسے گھرانے میں پلے بڑھے جہاں کشتی کا ماحول تھا۔ ان کے والد دادا صاحب ایک ریسلنگ کوچ تھے اور انہوں نے پانچ سال کی عمر میں جادھو کو کشتی سکھائی ۔ کالج میں ان کے ریسلنگ گرو بابو راؤ بالاواڑے اور بیلپوری گروجی تھے۔
جادھو اپنے کھیل کے لئے جانے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے ہمعصر دوسرے پہلوانوں سے مختلف تھے۔ انگلش کوچ ریس گارڈنر نے ان میں یہ خاصیت دیکھی اور 1948 کے اولمپک گیمز سے پہلے انہیں تربیت دی۔ ان کا تعلق کراڑ کے قریب گولیشور گاؤں سے تھا۔ انہیں ریسلنگ میں ان کی شراکت کے لئے 2000 میں بعد از مرگ ارجن ایوارڈ سے نوازا گیا۔