آئین یا آستھا

0
5

چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چڈ نے ایودھیا کیس کے تعلق سے جو اظہار خیال کیا ہے ا±س سے آئین ِ ہند میں یقین رکھنے والے ہر مکتب فکر اور فرقہ کے لوگوں کو دلی تکلیف پہنچی ہوگی۔ وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نہ ہوتے، ہائی کورٹ یا سیشن کورٹ کے جج ہوتے اور ایسی بات کہتے تب بھی ا±ن کا بیان ا±تنا ہی ناگوار گزرتا جتنا کہ اِس وقت گزر رہا ہے۔ کوئی بھی شخص جب منصفی پر فائز ہوتا ہے تو اپنی انفرادی حیثیت سے بالاتر ہوجاتا ہے، اسی لئے ہرخاص و عام کیلئے قابل تعظیم ہوتا ہے۔ اِس صورت میں وہ جس کسی مذہب یا دھرم کا ماننے والا ہو، جج کی کرسی پر بیٹھتاہے تو مذہب کی کتاب لے کر نہیں بیٹھتا۔ آئین اور قانون کی کتاب لے کر بیٹھتا ہے اور اسی کی روشنی میں مقدموں کی سماعت کرکے فیصلہ سناتا ہے۔
عدلیہ میں ہر فرقے اور طبقے کے لوگ اس لئے یقین رکھتے ہیں کہ آئین و قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کیلئے قائم کئے گئے اس مندر میں منصفی کے فرائض انجام دینے والے حضرات و خواتین مذہب کے مبلغ نہیں ، آئین کے محافظ ہوتے ہیں۔ کسی مقدمہ میں ا±ن کی ذاتی رائے کچھ بھی ہوسکتی ہے مگر وہ فیصلہ سناتے وقت ہر طرح کے حصار سے باہر نکل کر حقائق کا تجزیہ کرتے اور آئین و قانون کی رو سے فیصلہ سناتے ہیں۔ جسٹس چندر چڈ کے بیان کا مفہوم یہ ہے کہ ایودھیا تنازع کا فیصلہ کرتے وقت وہ بڑی کشمکش میں تھے اس لئے ا±نہوں نے ”غیبی مدد“ کیلئے رجوع کیا اور اسی کی روشنی میں ذہن بنایا۔ یہ بیان ایک ایسے فیصلے کو از سرنو موضوع بحث بناتا ہے جس کے سیاسی ہونے میں کسی کو شک نہیں تھا کیونکہ یہ فیصلہ مذہب (آستھا) کی بنیاد پر دیا گیا تھا، حقائق اور شواہد کی بنیاد پر نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایسا فاضل جج جو عدلیہ کا سربراہ ہے، خود کو ایک خاص مذہب سے جوڑ کر فیصلہ سناسکتا ہے؟ کیا ببانگ د±ہل اس کا اعلان بھی کرسکتا ہے؟ اگر وہ ایسا کرے تو کیا عدلیہ کا وقار بڑھائیگا،عوام کو فیض پہنچائیگا اور کوئی نظیر قائم کریگا جو آنے والے برسوں میں رہنما ثابت ہوگی؟ افسوس کہ چندر چڈ کے بیان سے ایسا کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔
عام مشاہدہ ہے کہ جو صاحبانِ مسند سبکدوشی کے قریب آجاتے ہیں ا±ن کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ کوئی ایسا فیصلہ ضرور کریں جس کے ذریعہ پہچانے جائیں ، یاد رکھے جائیں۔جلد ہی چندر چڈ صاحب کو سبکدوش ہونا ہے۔ ظاہر ہے ا±ن کی بھی یہی تمنا ہوگی۔ اس کے باوجود حیرت ہے کہ ا±نہوں نے اپنے سنویدھان وادی نہیں بلکہ آستھا وادی ہونے کا انکشاف کیا اور شاید اسی حیثیت سے یاد رکھے جانا چاہتے ہیں ، مگر ایسا کرنے سے ا±نہیں کیا مل جائیگا؟ کہیں ا±ن کا بھی کوئی ہدف تو نہیں ؟
سچ پوچھئے تو ہماری نظر میں ا±ن کی جو قدرو منزلت ہے، ا±سے دھچکا لگا ہے۔ اس سے قبل ا±نہیں اپنے دولت کدہ پر وزیر اعظم کے ساتھ گنیش پوجا کرتے دیکھا گیا تھا۔ جمہوریت کے تین ستون (مقننہ، عاملہ اور عدلیہ) میں سے دو کے سربراہ ایک ساتھ پوجا کریں اور اس کی جھلکیاں مشتہر کی جائیں تو اس سے روحانیت کا فروغ تو ممکن نہیں مقننہ، عاملہ اور عدلیہ کو بھی فیض نہیں پہنچ سکتا مگر ایسا کیا گیا۔ تب بھی چندر چڈ صاحب نے دھرم کی اپنی شناخت کا اعلان کیا تھا اور اب مذکورہ اظہار ِ خیال کے ذریعہ بھی وہی کیا ہے۔ اگر موصوف سے تحریک پاکر ملک بھر کی عدالتوں کے جج حضرات، اقتدار سے قریب ہو جائیں اور عدالتی کاموں میں دھرم کا سہارا لیں اور ہر جج اپنے دھرم کے مطابق فیصلہ سنائے تو خدانخواستہ کتنا انتشار پیدا ہوجائیگا!